: اسلامی واقعہ | Islamic Waqiat in Urdu
اسلام کی تاریخ میں کئی واقعات ایسے ہیں جو انسانی عظمت اور اخلاقیات کی بہترین مثالیں پیش کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک واقعہ “فتح مکہ” ہے جس میں حضرت محمد ﷺ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ رہتی دنیا تک انسانیت کے لئے مشعل راہ رہے گا۔
فتح مکہ کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور تاریخی واقعہ ہے۔ اس دن حضرت محمد ﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نہایت شان و شوکت کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخلہ کیا۔ یہ وہی شہر تھا جہاں آپ ﷺ اور آپ کے پیروکاروں پر بے پناہ ظلم و ستم ڈھائے گئے تھے، جہاں آپ کے صحابہ کو طرح طرح کی اذیتیں دی گئی تھیں اور آپ کو خود بھی کئی سالوں تک مکہ سے باہر رہنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
فتح مکہ کا پس منظر یہ تھا کہ قریش نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی تھی، جس کی وجہ سے حضرت محمد ﷺ نے ان کے خلاف کارروائی کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر قریش کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا، اور وہ خوفزدہ ہو گئے تھے کہ حضرت محمد ﷺ اور ان کے صحابہ ان کے ساتھ بدلہ لیں گے۔ لیکن حضرت محمد ﷺ نے ایسا کچھ نہیں کیا، بلکہ اس دن آپ نے جس عفو و درگزر کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف میں لکھا گیا ہے۔
حضرت محمد ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہی خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر آپ ﷺ نے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا اور توحید کا اعلان کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے قریش کے سرداروں کو بلایا، جو آپ کے سامنے سرتسلیم خم کئے کھڑے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ “تم لوگ کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟” انہوں نے جواب دیا، “ہم آپ سے بھلائی کی امید رکھتے ہیں کیونکہ آپ کریم بھائی اور کریم بھتیجے ہیں۔” حضرت محمد ﷺ نے فرمایا، “آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔”
حضرت محمد ﷺ کے اس فرمان نے قریش کے دلوں میں محبت و عقیدت کا ایسا جذبہ پیدا کیا کہ وہ سب کے سب اسلام کے دامن میں آ گئے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف ان کو معاف کیا بلکہ ان کے دلوں کو جیتنے کے لئے ان کے ساتھ نرمی اور محبت کا برتاؤ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کو اسلام کی سب سے بڑی کامیابی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ فتح ہتھیاروں کے زور پر نہیں بلکہ دلوں کو جیتنے کی فتح تھی۔
حضرت محمد ﷺ کے اس عفو و درگزر کے واقعات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب ہمیں کسی پر اختیار حاصل ہو جائے تو ہمیں اس کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ ہمیں اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور درگزر سے کام لینا چاہئے تاکہ وہ بھی ہماری اچھائیوں سے متاثر ہو کر ہمارے قریب آئیں۔
فتح مکہ کے اس واقعے سے ہمیں یہ بھی سیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک مسلمان کے لئے سب سے اہم چیز اللہ کی رضا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے اپنے ذاتی دشمنوں کو معاف کر کے اللہ کی رضا حاصل کی، اور اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ عزت و مقام عطا فرمایا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
اس واقعے کے بعد حضرت محمد ﷺ نے مکہ مکرمہ میں چند روز قیام فرمایا اور وہاں کے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروایا۔ اس دوران آپ ﷺ نے معاشرتی انصاف، انسانی حقوق اور بھائی چارے کی تعلیمات کو عام کیا، جن کی بدولت مکہ کے لوگ آپ کے گرویدہ ہو گئے۔
فتح مکہ کا یہ واقعہ آج بھی مسلمانوں کے لئے ایک عظیم سبق ہے۔ جب بھی ہم طاقتور ہوں یا کسی پر فوقیت حاصل ہو، ہمیں حضرت محمد ﷺ کی اس سنت کو یاد رکھنا چاہئے اور اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف اور محبت کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ اس سے نہ صرف دنیا میں امن و آشتی قائم ہو گی بلکہ آخرت میں بھی کامیابی حاصل ہو گی۔
حضرت محمد ﷺ کا یہ عفو و درگزر اس بات کی بھی علامت ہے کہ اسلام میں تشدد اور انتقام کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بلکہ اسلام ہمیں محبت، بھائی چارہ اور عفو و درگزر کا درس دیتا ہے۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر عمل کر کے ہم دنیا میں امن اور خوشحالی لا سکتے ہیں۔
آخر میں، ہمیں حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ سے یہ سیکھنا چاہئے کہ کامیابی کا راستہ طاقت یا ظلم سے نہیں بلکہ عفو، درگزر اور محبت سے ہموار ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگیوں میں ان اصولوں کو اپنائیں تو دنیا میں امن و سکون کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔