اس مضمون میں قبر کی پہلی رات کے منظر اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ قبر کی پکار، اس میں پیش آنے والے واقعات اور مومن اور بد اعمال انسان کے ساتھ قبر میں ہونے والے سلوک کو احادیث کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

قبر کی پہلی رات کا منظر کیسا ہوگا؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتا ہے۔ آج ہم آپ کے لیے اس سوال کا جواب اسلامی نقطہ نظر سے پیش کریں گے اور ساتھ ہی یہ بھی بتائیں گے کہ قبر انسان کو کیسے پکارتی ہے اور کیا یہ پکار انسان سن سکتا ہے۔

قبر کی پکار

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لوگو! لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔” قبر ہر روز اپنے مردوں سے خطاب کرتی ہے اور اعلان کرتی ہے: “میں غربت اور تنہائی کا گھر ہوں، مٹی اور کیڑوں کا گھر ہوں۔”

جب مومن کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر خوش ہو کر اس کا استقبال کرتی ہے اور کہتی ہے: “تم میرے اوپر چلنے والوں میں بہت محبوب تھے، آج تم میری جانب آ گئے ہو۔ اب دیکھو، میں تمہارے لیے کیسے کشادہ ہو جاتی ہوں۔” پھر قبر تاحد نگاہ وسیع ہو جاتی ہے اور جنت کا دروازہ اس کے لیے کھل جاتا ہے، جہاں سے جنت کی خوشبو اور تازہ ہوا آتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے قریب بیٹھ گئے اور فرمایا: “یہ قبر ہر دن بلند آواز میں کہتی ہے: ‘اے آدم کی اولاد! تو نے مجھے کیوں بھلا دیا؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں تنہائی، غربت اور وحشت کا گھر ہوں؟ کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں؟ لیکن اللہ جس کے لیے چاہے گا، اسے کشادگی دے گا۔’ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘یہ قبر یا تو جنت کا باغ ہے یا آگ کا تنور۔'”

قبر کا منظر

حضرت ابو حجاج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جب مردہ قبر میں رکھا جاتا ہے تو قبر اسے کہتی ہے: ‘اے ابن آدم! تجھے کس چیز نے مجھ سے دھوکے میں رکھا؟ کیا تو نہیں جانتا تھا کہ میں فتنہ، اندھیرا اور کیڑوں کا گھر ہوں؟’ اگر مردہ نیک ہوتا ہے تو اس کی نیکیوں کے جواب میں قبر کشادہ ہو جاتی ہے اور کہتی ہے: ‘یہ شخص نیک تھا، اب میں اس کے لیے سرسبز ہو جاتی ہوں۔'”

حضرت عبداللہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مردہ قبر میں اپنے جنازے کے قدموں کی آواز بھی سنتا ہے۔ قبر اسے کہتی ہے: ‘اے ابن آدم! تجھے میری تنگی اور کیڑوں کا خوف نہیں تھا؟’ اگر وہ بد اعمال ہوتا ہے تو قبر اسے جکڑ لیتی ہے اور اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔”

دعا

اللہ تعالیٰ ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے اور نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، یا رب العالمین۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here